EN हिंदी
دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے | شیح شیری
diwana hun mujhe na tasahul se bandhiye

غزل

دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے

جوشش عظیم آبادی

;

دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے
ہاتھوں کو خوب رشتۂ کاکل سے باندھئے

اہل چمن کو اتنا پریشاں نہ کیجئے
بکھرے ہوئے یہ بال ہیں سنبل سے باندھئے

ہرگز نہ ہوجیے کس و ناکس سے ملتجی
اس غم کدے میں دھیان توکل سے باندھئے

یہ خوب جانتا ہوں کسی کو کرو گے قتل
خنجر کمر میں آپ تجاہل سے باندھئے

اس گلشن جہان میں بد عہد ہیں سبھی
بلبل یہاں نہ عہد کسی گل سے باندھئے

احوال ایک ہے دل وحشت سرشت کا
یا جز سے باندھئے اسے یا کل سے باندھئے

ؔجوشش تو اس طرح کی زمینوں میں یاد رکھ
مضموں جو باندھئے سو تأمل سے باندھئے