EN हिंदी
دیجے نہیں کسو کو تو پھر لیجیے بھی نہیں | شیح شیری
dije nahin kasu ko to phir lijiye bhi nahin

غزل

دیجے نہیں کسو کو تو پھر لیجیے بھی نہیں

نین سکھ

;

دیجے نہیں کسو کو تو پھر لیجیے بھی نہیں
نیکی نہ بن سکے تو بدی کیجیے بھی نہیں

توقیر‌ حسن شرط ہے دل دینے کے لیے
گر حسن ہی نہ ہو تو کبھو ریجھیے بھی نہیں

ہووے اگرچہ اپنی شرافت اوپر نگاہ
ہرگز بدی کے کام پہ دل دیجیے بھی نہیں

ایدھر سے سیتے جاؤ اور اودھر سے پھٹتا جائے
ایسے طرح کے کپڑے کو پھر سیجیے بھی نہیں

دینا دلانا سارا ہے اک نام کے لیے
گر نام بھی نہ ہو تو عبث چھیجیے بھی نہیں

کوئی سا معاملہ ہو پہلے چھان لیجئے
یک بارگی بھڑک کے کبھو کیجیے بھی نہیں

مے کا مزا جبھی ہے کہ جب ماہ رو ہو پاس
گر ماہ رو نہ ہووے تو مے پیجیے بھی نہیں