EN हिंदी
دیدنی ہے بہار کا منظر | شیح شیری
didani hai bahaar ka manzar

غزل

دیدنی ہے بہار کا منظر

رئیس امروہوی

;

دیدنی ہے بہار کا منظر
زہر چھڑکا گیا درختوں پر

بن رہے ہیں عروس گل کا کفن
مگس برگ‌ و عنکبوت شجر

چیل کوؤں کو تاکتے رہئے
چاند تاروں سے تھک گئی ہے نظر

جو مرا تکیہ جوانی تھا
اسی برگد کی جھک گئی ہے کمر

ہاتھ پھیلا کے چیختے ہیں درخت
صرصر حادثہ کا رخ ہے کدھر

سرخ پھولوں کے لال انگارے
چشم زرد عقاب کے اخگر

وہ جبین شفق پہ خط شعاع
خون سے کس کے سرخ ہے خنجر

اب کے برسات کچھ تو راس آئی
گھاس اگنے لگی منڈیروں پر

دھوپ اس صحن میں نہ در آئے
بند کر دو تمام روزن در

رقص کرتے ہوئے بگولوں میں
دیو و جنات و روح کے لشکر

دیکھتا ہوں کہ کیا دکھاتے ہیں
اپنے سائے پہ جم گئی ہے نظر

عالم بے خودی میں گہرا سانس
سینۂ کائنات میں ہے سفر

آپ اپنے سے کیوں گریزاں ہوں
کسی آسیب کا ہے مجھ پہ اثر

کون میرے لیے ہے شب بیدار
کیوں برستے ہیں رات بھر پتھر

میں ہی میں ہوں خلائے تیرہ میں
نہ عطارد نہ مشتری نہ قمر

تہ بہ تہ ظلمتیں ہیں جنبش میں
رینگتے ہیں سیاہ پوش اژدر

جبل الشمس کی بلندی سے
دیکھتا ہوں زمیں کو جھک جھک کر

ایک پر نور نیلگوں نقطہ
کانپتا ہے خلا میں رہ رہ کر

کہکشاں سے شمال کی جانب
وقت کے بے نشان محور پر

نور کے دائرے ہیں گردش میں
آخر ان قافلوں کا رخ ہے کدھر

کون آخر جھنجھوڑتا ہے مجھے
عالم خواب میں سر بستر

کون آخر مجھے جگاتا ہے
آخر شب میں روز آ آ کر

نہ شہابہ نہ کوئی طیارہ
کون اڑ کر گیا ادھر سے ادھر