دیدہ و دل مری سرکار اٹھا لائے ہیں
ہم قفس میں بھی ترا پیار اٹھا لائے ہیں
کیسے چھینیں گے بھلا ہم سے محبت تیری
ہم ترے کوچہ و بازار اٹھا لائے ہیں
لاکھ ویران سہی گوشۂ زنداں لیکن
ہم تو تیرے لب و رخسار اٹھا لائے ہیں
زنگ آلود پڑے تھے تری غفلت کے سبب
ہم وہی درد کے ہتھیار اٹھا لائے ہیں
ہم سے بانٹی نہ گئیں بچوں میں خوشیاں اب کے
عید کے دن رسن و دار اٹھا لائے ہیں
حسن یوسف تری حرمت کو بچانے کے لئے
ہم یہاں مصر کا بازار اٹھا لائے ہیں
سرخ روئی کی نمائش تھی سر بزم جہاں
مرے قاتل مری دستار اٹھا لائے ہیں
میں تو اک عمر سے خاموش پڑا تھا صفدرؔ
میرے دشمن مرا پندار اٹھا لائے ہیں
غزل
دیدہ و دل مری سرکار اٹھا لائے ہیں
صفدر سلیم سیال