EN हिंदी
دیدہ و دل میں کوئی حسن بکھرتا ہی رہا | شیح شیری
dida o dil mein koi husn bikharta hi raha

غزل

دیدہ و دل میں کوئی حسن بکھرتا ہی رہا

جاں نثاراختر

;

دیدہ و دل میں کوئی حسن بکھرتا ہی رہا
لاکھ پردوں میں چھپا کوئی سنورتا ہی رہا

روشنی کم نہ ہوئی وقت کے طوفانوں میں
دل کے دریا میں کوئی چاند اترتا ہی رہا

راستے بھر کوئی آہٹ تھی کہ آتی ہی رہی
کوئی سایہ مرے بازو سے گزرتا ہی رہا

مٹ گیا پر تری بانہوں نے سمیٹا نہ مجھے
شہر در شہر میں گلیوں میں بکھرتا ہی رہا

لمحہ لمحہ رہے آنکھوں میں اندھیرے لیکن
کوئی سورج مرے سینے میں ابھرتا ہی رہا