EN हिंदी
دیدہ و دانستہ دھوکا کھا گئے | شیح شیری
dida-o-danista dhoka kha gae

غزل

دیدہ و دانستہ دھوکا کھا گئے

منظور حسین شور

;

دیدہ و دانستہ دھوکا کھا گئے
ہم فریب زندگی میں آ گئے

جب ہجوم شوق سے گھبرا گئے
کھو گئے خود اور تم کو پا گئے

چین بھی لینے نہیں دیتے مجھے
میں ابھی بھولا تھا پھر یاد آ گئے

میں کہاں جاؤں نظر کو کیا کروں
آپ تو ساری فضا پر چھا گئے

دل ہی دل میں اف وہ درد ناگہاں
آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ سمجھا گئے

رخ سے آنچل بھی نہ سرکا تھا ابھی
نیچی نظریں ہو گئیں شرما گئے

اف یہ غنچوں کا تبسم یہ بہار
حیف اگر یہ غنچے کل مرجھا گئے

جس قدر غنچے کھلے تھے نو بہ نو
میری آنکھوں سے لہو برسا گئے

پوچھتے کیا ہو ان اشکوں کا سبب
واقعات رفتہ پھر یاد آ گئے

اب تو شورؔ اپنا فسانہ ختم کر
ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے