دیدۂ کم صفات اندر سے
تو نے دیکھی ہے رات اندر سے
خواہش نعرۂ ظفر یابی
مجھ کو ہونی ہے مات اندر سے
خیر مقدم نہ کر عروس چشم
لٹ چکی ہے برات اندر سے
اے فریب برون موسم زرد
سبز تھے سارے پات اندر سے
اپنے ٹھنڈے بدن کو چھوتا ہوں
جوں ہی جلتے ہیں ہات اندر سے
حسرت داد جستجو نہ رہی
ایسی بگڑی ہے بات اندر سے
ہائے وہ گھر کہ جس میں پیش آئے
دستکی حادثات اندر سے
شرر افشانئ بیاض غزل
کیا ہوئے کاغذات اندر سے
سرمئی خوشبوؤں کے نشہ ہے
رقص فرما ہے رات اندر سے
کوئی لطف عجب کہ ہے مسدود
جہت صد جہات اندر سے
غزل
دیدۂ کم صفات اندر سے
حادث صلصال