دیدۂ بے رنگ میں خوں رنگ منظر رکھ دیے
ہم نے اس دشت تپاں میں بھی سمندر رکھ دیے
وہ جگہ جو لعل و گوہر کے لیے مقصود تھی
کس نے یہ سنگ ملامت اس جگہ پر رکھ دیے
اب کسی کی چیخ کیا ابھرے کہ میر شہر نے
ساکنان شہر کے سینوں پہ پتھر رکھ دیے
شاخساروں پر نہ جب اذن نشیمن مل سکا
ہم نے اپنے آشیاں دوش ہوا پر رکھ دیے
اہل زر نے دیکھ کر کم ظرفی اہل قلم
حرص زر کے ہر ترازو میں سخن ور رکھ دیے
ہم تو ابریشم کی صورت نرم و نازک تھے مگر
تلخئ حالات نے لہجے میں خنجر رکھ دیے
جس ہوا کو وہ سمجھتے تھے کہ چل سکتی نہیں
اس ہوا نے کاٹ کر لشکر کے لشکر رکھ دیے
بخشؔ صیاد ازل نے حکم آزادی کے ساتھ
اور اسیری کے بھی خدشے دل کے اندر رکھ دیے
غزل
دیدۂ بے رنگ میں خوں رنگ منظر رکھ دیے
بخش لائلپوری