دید کی سد راہ ہے یہ مژہ
خار پائے نگاہ ہے یہ مژہ
نت تقاطر ہی اس سے رہتا ہے
رگ ابر سیاہ ہے یہ مژہ
چشم میری وہ بحر ہیں مواج
جس کے لب کی گیاہ ہے یہ مژہ
آنکھیں تیری وہ لڑنے والی ہیں
ساتھ جن کے سپاہ ہے یہ مژہ
ہر طرح دل میں کھب رہی ہے ترے
خواہ برچھی ہے خواہ ہے یہ مژہ
آنکھیں مل مل چھپاتے ہو تم کیوں
دیکھنا کیا گناہ ہے یہ مژہ
دل میں کانٹا سا کچھ چبھے ہے مرے
کہ حسنؔ کس کی آہ ہے یہ مژہ
غزل
دید کی سد راہ ہے یہ مژہ
میر حسن