EN हिंदी
دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے | شیح شیری
di hai wahshat to ye wahshat hi musalsal ho jae

غزل

دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے

عباس تابش

;

دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے
رقص کرتے ہوئے اطراف میں جنگل ہو جائے

اے مرے دشت مزاجو یہ مری آنکھیں ہیں
ان سے رومال بھی چھو جائے تو بادل ہو جائے

چلتا رہنے دو میاں سلسلہ دل داری کا
عاشقی دین نہیں ہے کہ مکمل ہو جائے

حالت ہجر میں جو رقص نہیں کر سکتا
اس کے حق میں یہی بہتر ہے کہ پاگل ہو جائے

میرا دل بھی کسی آسیب زدہ گھر کی طرح
خودبخود کھلنے لگے خود ہی مقفل ہو جائے

ڈوبتی ناؤ میں سب چیخ رہے ہیں تابشؔ
اور مجھے فکر غزل میری مکمل ہو جائے