دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے
رقص کرتے ہوئے اطراف میں جنگل ہو جائے
اے مرے دشت مزاجو یہ مری آنکھیں ہیں
ان سے رومال بھی چھو جائے تو بادل ہو جائے
چلتا رہنے دو میاں سلسلہ دل داری کا
عاشقی دین نہیں ہے کہ مکمل ہو جائے
حالت ہجر میں جو رقص نہیں کر سکتا
اس کے حق میں یہی بہتر ہے کہ پاگل ہو جائے
میرا دل بھی کسی آسیب زدہ گھر کی طرح
خودبخود کھلنے لگے خود ہی مقفل ہو جائے
ڈوبتی ناؤ میں سب چیخ رہے ہیں تابشؔ
اور مجھے فکر غزل میری مکمل ہو جائے
غزل
دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے
عباس تابش