دھوپ تھی صحرا تھا لیکن جسم کا سایہ نہ تھا
آدمی اس سے زیادہ تو کبھی تنہا نہ تھا
کھینچتے تھے اپنی جانب ریگزاروں کے سراب
دور تک صحرا میں لیکن آب کا قطرہ نہ تھا
ایک مبہم خواب تھا آنکھوں میں اور دل میں جنوں
ذہن میں لیکن عمارت کا کوئی نقشہ نہ تھا
بھیڑ تھی بستی میں لیکن میں کسے پہچانتا
اتنے لوگوں میں کسی بھی شخص کا چہرہ نہ تھا
اس قدر شدت سے وہ دریا سمندر سے ملا
اب سمندر ہی سمندر تھا کہیں دریا نہ تھا
گھر کی عظمت ہائے جس دیوار سے محفوظ تھی
گھر کے دروازے پے اب وہ ٹاٹ کا پردہ نہ تھا
وہ غزل اپنی سجاتا تھا لہو کے رنگ سے
پھر بھی کہتے ہیں نفسؔ اس کا کوئی پیشہ نہ تھا
غزل
دھوپ تھی صحرا تھا لیکن جسم کا سایہ نہ تھا
نفس انبالوی