دھوپ تھے سب راستے درکار تھا سایہ ہمیں
اک سراب خوش نما نے اور ترسایا ہمیں
دل زمیں پر اس کا چہرہ نقش ہو کر رہ گیا
بارہا پھر آئنے نے خود ہی ٹھکرایا ہمیں
دھوپ صحرا دھول دریا خار رستوں کی چبھن
منزلوں کے شوق نے کیا کیا نہ دکھلایا ہمیں
مسترد کرتا گیا ہے دل ربا چہروں کو دل
بعد اس کے کوئی چہرہ کب بھلا بھایا ہمیں
ہم کہیں معتوب تھے مجذوب تھے محبوب تھے
جس کی جیسی تھی نظر اس نے وہی پایا ہمیں
درد و راحت وصل و فرقت عشق کے ہیں رنگ و روپ
جاتے جاتے اس نے ذاکرؔ خوب سمجھایا ہمیں
غزل
دھوپ تھے سب راستے درکار تھا سایہ ہمیں
ذاکر خان ذاکر