دھوپ شجر کو گیت سنائے آتی ہے
تتلی سارے رنگ چرائے آتی ہے
ان اشعار کا خوش ہونا تو لازم ہے
جن اشعار پہ ان کی رائے آتی ہے
تھوڑی دیر میں ٹرین نکلنے والی ہے
سن تھوڑی ہی دیر میں چائے آتی ہے
اس لمحے پر لگ جاتے ہیں گھر کو بھی
جب جب وہ اس سمت سرائے آتی ہے
یعنی اس نے ٹھان ہی لی ہے جانے کی
وہ پورا سامان اٹھائے آتی ہے
خون بہاتی ہے باسطؔ کہساروں پر
شام اندھیری رات چھپائے آتی ہے

غزل
دھوپ شجر کو گیت سنائے آتی ہے
وصاف باسط