دھوپ پہ کیسی گرد پڑی ہے
دن ہے چھوٹا رات بڑی ہے
اس کے ہت کا طرز نگارش
کاغذ پر موتی کی لڑی ہے
نقش ابھرتے ہیں ہر لمحہ
یادوں کی بھی عمر بڑی ہے
مستقبل سے صیقل ہوگی
صدیوں پر جو گرد پڑی ہے
لمحوں کی پریاں جھوم رہی ہیں
ہاتھوں میں جادو کی چھڑی ہے

غزل
دھوپ پہ کیسی گرد پڑی ہے
مطرب نظامی