EN हिंदी
دھوپ پہ کیسی گرد پڑی ہے | شیح شیری
dhup pe kaisi gard paDi hai

غزل

دھوپ پہ کیسی گرد پڑی ہے

مطرب نظامی

;

دھوپ پہ کیسی گرد پڑی ہے
دن ہے چھوٹا رات بڑی ہے

اس کے ہت کا طرز نگارش
کاغذ پر موتی کی لڑی ہے

نقش ابھرتے ہیں ہر لمحہ
یادوں کی بھی عمر بڑی ہے

مستقبل سے صیقل ہوگی
صدیوں پر جو گرد پڑی ہے

لمحوں کی پریاں جھوم رہی ہیں
ہاتھوں میں جادو کی چھڑی ہے