EN हिंदी
دھوپ میں ہم ہیں کبھی ہم چھاؤں میں | شیح شیری
dhup mein hum hain kabhi hum chhanw mein

غزل

دھوپ میں ہم ہیں کبھی ہم چھاؤں میں

رئیس فروغ

;

دھوپ میں ہم ہیں کبھی ہم چھاؤں میں
راستے الجھے ہوئے ہیں پاؤں میں

بستیوں میں ہم بھی رہتے ہیں مگر
جیسے آوارہ ہوا صحراؤں میں

ہم نے اپنایا درختوں کا چلن
خود کبھی بیٹھے نہ اپنی چھاؤں میں

کس قدر نادان ہیں اہل جہاں
ہم گنے جانے لگے داناؤں میں

سامنے کچھ دیر لہراتے رہے
پھر وہ ساحل بہہ گئے دریاؤں میں

اک یہی دنیا بدلتی ہے فروغؔ
کیسی کیسی اجنبی دنیاؤں میں