دھوپ میں بیٹھے ہیں بچے ہاتھ میں چھاگل لئے
سو گئیں شاید ہوائیں گود میں بادل لئے
آ رہا ہے چپ کے تالابوں میں پتھر پھینکتا
اک جلوس کودکاں کو ساتھ اک پاگل لئے
ان اندھیری بستیوں میں رکھ نہ دروازہ کھلا
کون آتا ہے یہاں اپنائی کی مشعل لئے
ذات میں گم صم یوں ہی سڑکوں پہ دن بھر گھومنا
اور شب کو سوچنا پہلو میں دل بے کل لئے
کیا عجب اس پر مہک ہی جائیں درماں کے گلاب
ہے تو اک شاخ نظر امید کی کونپل لئے
آج تک بے سمتیوں کی رہروی نے کیا دیا
اب ذرا دم لے بھی لو بزمیؔ بہت کچھ چل لئے

غزل
دھوپ میں بیٹھے ہیں بچے ہاتھ میں چھاگل لئے
پرویز بزمی