دھوپ کو کچھ اور جلنا چاہئے
جسم کا سایہ پگھلنا چاہئے
چیٹیاں چلنے لگی ہیں پیٹھ میں
اب تمہارا تیر چلنا چاہئے
گود سونی ہو چلی ہے آنکھ کی
اب تو کوئی خواب پلنا چاہئے
غم بیاں ہو پیاس کا کچھ اس طرح
ریت سے پانی نکلنا چاہئے
بندگی کی لو ہو ایسی جس میں کہ
سنگ مرمر تک پگھلنا چاہئے
ہم بدن کی بندشوں سے دور ہیں
روح میں تم کو بھی ڈھلنا چاہئے
اب زباں تک آ گئیں ہے تلخیاں
اب ہمیں فوراً نکلنا چاہئے
غزل
دھوپ کو کچھ اور جلنا چاہئے
رینو نیر