دھوپ کی شدت میں ننگے پاؤں ننگے سر نکل
اے دل سادہ سواد جبر سے باہر نکل
کل کا سورج شاد کامی کی خبر دے یا نہ دے
چھوڑ اندیشے حصار ذات سے باہر نکل
میں کئی صدیوں سے گم ہوں خواب کے سکرات میں
آفتاب صبح بیداری مرے سر پر نکل
ساحلوں پر تیرے استقبال کو آیا ہے کون
ڈوبنے والے ابھر پھر سطح دریا پر نکل
عہد دار و گیر ہے اپنا تشخص گم نہ کر
سوچ کی ساری فصیلیں توڑ کر باہر نکل
تیسری دنیا منور ہو مرے افکار سے
مہر آزادی مرے احساس کے اندر نکل
اپنے خد و خال دیکھوں میں بھی اے سلطان رشکؔ
میری آنکھوں سے مگر اے خواب کے منظر نکل
غزل
دھوپ کی شدت میں ننگے پاؤں ننگے سر نکل
سلطان رشک