دھوپ کے زرد جزیروں میں نمو زندہ ہے
رنگ آشوب فضاؤں میں لہو زندہ ہے
خواب در خواب بس اک چیختے صحرا کا سکوت
اور آنکھوں میں وہی دید کی خو زندہ ہے
شاخ مژگاں پہ مہکنے لگے زخموں کے گلاب
پچھلے موسم کی ملاقات کی بو زندہ ہے
میرے ساقی ترے جاں بخش لبوں کا ہے یہ فیض
دست میکش میں ابھی تک جو سبو زندہ ہے
شل ہوا جاتا ہے کیوں ہاتھ مرے قاتل کا
زد پہ خنجر کے ابھی خشک گلو زندہ ہے
کپکپی فرط ندامت سے ہے موجوں میں ابھی
تشنہ لب کون سر ساحل جو زندہ ہے
کتنی جاں سوز ہے اس شہر منافق کی ہوا
اس پہ شاہدؔ مجھے حیرت ہے کہ تو زندہ ہے

غزل
دھوپ کے زرد جزیروں میں نمو زندہ ہے
شاہد کمال