دھوپ کے دشت میں بے سایہ شجر میں ہم تھے
منہمک پھر بھی سرابوں کے سفر میں ہم تھے
منتشر کر چکی آندھی تو یہ معلوم ہوا
اک بگولے کی طرح ریت کے گھر میں ہم تھے
تیری آواز کے جادو نے خبردار کیا
نا سمجھ تھے کہ بلاؤں کے اثر میں ہم تھے
تا نہ شاکی رہے دریائے ہوس کی کوئی موج
بادباں جسم کے کھولے کہ بھنور میں ہم تھے
یہ ترے قرب کا اعجاز ہے ورنہ پہلے
طاق اتنے کہاں جینے کے ہنر میں ہم تھے
غزل
دھوپ کے دشت میں بے سایہ شجر میں ہم تھے
شہریار