EN हिंदी
دھوپ کے دشت میں بے سایہ شجر میں ہم تھے | شیح شیری
dhup ke dasht mein be-saya shajar mein hum the

غزل

دھوپ کے دشت میں بے سایہ شجر میں ہم تھے

شہریار

;

دھوپ کے دشت میں بے سایہ شجر میں ہم تھے
منہمک پھر بھی سرابوں کے سفر میں ہم تھے

منتشر کر چکی آندھی تو یہ معلوم ہوا
اک بگولے کی طرح ریت کے گھر میں ہم تھے

تیری آواز کے جادو نے خبردار کیا
نا سمجھ تھے کہ بلاؤں کے اثر میں ہم تھے

تا نہ شاکی رہے دریائے ہوس کی کوئی موج
بادباں جسم کے کھولے کہ بھنور میں ہم تھے

یہ ترے قرب کا اعجاز ہے ورنہ پہلے
طاق اتنے کہاں جینے کے ہنر میں ہم تھے