دھوپ کا احساس جانے کیوں اسے ہوتا نہیں
وقت آوارہ ہے ٹھنڈی چھاؤں میں ہوتا نہیں
جھوٹ کی دیوار سے لٹکے ہوئے جسموں کے دن
ہو گئے پورے کہ سچ تو شب میں بھی سوتا نہیں
ہم تکا کرتے ہیں کھڑکی سے اترتے چاند کو
دوڑ کر اس کو پکڑ لیں یہ کبھی ہوتا نہیں
دل عجب پتھر ہے پانی سے پگھل جائے کہیں
اور کبھی جو آگ میں رکھ دیجئے روتا نہیں
روشنی پھوٹے قلم کے آنکھ سے کیوں کر متینؔ
آنسوؤں کے بیج دل میں جب کوئی بوتا نہیں
غزل
دھوپ کا احساس جانے کیوں اسے ہوتا نہیں
غیاث متین