دھوپ جب تک سر پہ تھی زیر قدم پائے گئے
ڈوبتے سورج میں کتنی دور تک سائے گئے
آج بھی حرف تسلی ہے شکست دل پہ طنز
کتنے جملے ہیں جو ہر موقع پہ دہرائے گئے
اس زمین سخت کا اب کھودنا بے کار ہے
دفن تھے جو اس خرابے میں وہ سرمائے گئے
دشمنوں کی تنگ ظرفی ناپنے کے واسطے
ہم شکستوں پر شکستیں عمر بھر کھائے گئے
اب درندہ کھوجیوں کی دسترس میں آ گیا
نہر کے ساحل پہ پنجوں کے نشاں پائے گئے
آج سے میں اپنے ہر اقدام میں آزاد ہوں
جھانکتے تھے جو مرے گھر میں وہ ہمسائے گئے
ان گلی کوچوں میں بہنوں کا محافظ کون ہے
کسب زر کی دوڑ میں بستی سے ماں جائے گئے
غزل
دھوپ جب تک سر پہ تھی زیر قدم پائے گئے
طالب جوہری