EN हिंदी
دھوپ ہے کیا اور سایا کیا ہے اب معلوم ہوا | شیح شیری
dhup hai kya aur saya kya hai ab malum hua

غزل

دھوپ ہے کیا اور سایا کیا ہے اب معلوم ہوا

ظفر گورکھپوری

;

دھوپ ہے کیا اور سایا کیا ہے اب معلوم ہوا
یہ سب کھیل تماشا کیا ہے اب معلوم ہوا

ہنستے پھول کا چہرہ دیکھوں اور بھر آئے آنکھ
اپنے ساتھ یہ قصہ کیا ہے اب معلوم ہوا

ہم برسوں کے بعد بھی اس کو اب تک بھول نہ پائے
دل سے اس کا رشتہ کیا ہے اب معلوم ہوا

صحرا صحرا پیاسے بھٹکے ساری عمر جلے
بادل کا اک ٹکڑا کیا ہے اب معلوم ہوا