دھوپ ہے کیا اور سایا کیا ہے اب معلوم ہوا
یہ سب کھیل تماشا کیا ہے اب معلوم ہوا
ہنستے پھول کا چہرہ دیکھوں اور بھر آئے آنکھ
اپنے ساتھ یہ قصہ کیا ہے اب معلوم ہوا
ہم برسوں کے بعد بھی اس کو اب تک بھول نہ پائے
دل سے اس کا رشتہ کیا ہے اب معلوم ہوا
صحرا صحرا پیاسے بھٹکے ساری عمر جلے
بادل کا اک ٹکڑا کیا ہے اب معلوم ہوا
غزل
دھوپ ہے کیا اور سایا کیا ہے اب معلوم ہوا
ظفر گورکھپوری