ڈھونڈیئے دن رات ہفتوں اور مہینوں کے بٹن
لا مکاں میں کھو گئے ہیں ان مکینوں کے بٹن
صرف چھونے سے نظر آتا ہے منظر کا فریب
دیکھنے میں خوش نما ہیں آبگینوں کے بٹن
درس تقویٰ دینے والے کی قبا پر دیکھیے
سونے چاندی اور چمکیلے نگینوں کے بٹن
اب گریباں چاک کا مطلب بتانے کے لیے
کھولنے پڑتے ہیں اکثر آستینوں کے بٹن
جب صدائے کن کا اگلا مرحلہ آ جائے گا
آسماں کے کاج میں ہوں گے زمینوں کے بٹن
کوئی ہے، ورنہ یہ دنیا کس قدر برباد ہو
پاگلوں کے ہاتھ میں ہیں سب مشینوں کے بٹن
غزل
ڈھونڈیئے دن رات ہفتوں اور مہینوں کے بٹن
عمران شمشاد