EN हिंदी
ڈھونڈھتی پھرتی ہے اب اس کو نگاہ واپسیں | شیح شیری
DhunDhti phirti hai ab usko nigah-e-wapsin

غزل

ڈھونڈھتی پھرتی ہے اب اس کو نگاہ واپسیں

نجیب رامش

;

ڈھونڈھتی پھرتی ہے اب اس کو نگاہ واپسیں
اس دریچے میں اک افسانی تبسم تھا کہیں

ساری تشبیہات دفنا دیں بیاباں میں کہیں
تیرا کیا دنیا میں کوئی بھی کسی جیسا نہیں

توڑ کر اک حسن ہر دن تجھ کو رکھا ہے حسیں
زندگی کیا اپنے بارے میں بھی اب سوچیں ہمیں

اب تو اس صحرا کے ہر گوشے پہ ہوتا ہے گماں
گر گیا ہے جیسے میرا آخری سکہ یہیں

اک تبسم خود پہ تھوڑا رحم کر لینے کو ہے
اور اگر یہ شے بھی مجھ سے کھو گئی کل تک کہیں

طنز کرتا ہوں میں لوگوں سے الجھ لیتا بھی ہوں
مجھ سے لڑ لو جب تلک گونگی ہے میری آستیں

روز و شب کے کرب کا رد عمل اک خامشی
زیست ظالم باپ کی مجبور بیٹی تو نہیں