ڈھونڈھتا ہوں سر صحرائے تمنا خود کو
میں کہ سمجھا تھا کبھی روح تماشا خود کو
اپنے بچوں کی طرف غور سے جب بھی دیکھا
کتنے ہی رنگوں میں بکھرا ہوا پایا خود کو
اور کچھ لوگ مرے سائے تلے سستا لیں
گرتی دیوار ہوں دیتا ہوں سہارا خود کو
نور تو مجھ سے فراواں ہوا محفل محفل
غم نہیں شمع صفت میں نے جلایا خود کو
ریگ امید کے شاداب سرابوں کے طفیل
میں نے دیکھا ہے کبھی صورت صحرا خود کو
میری عظمت کا نشاں میری تباہی کی دلیل
میں نے حالات کے سانچے میں نہ ڈھالا خود کو
میری تخلیق مرے کام نہ آئی عارفؔ
میں بہ انداز خدا پاتا ہوں تنہا خود کو
غزل
ڈھونڈھتا ہوں سر صحرائے تمنا خود کو
عارف عبدالمتین