دھندلے دھندلے پیڑ اگتی شام کی سرگوشیاں
جو ہے شہ رگ کے قریں اس نام کی سرگوشیاں
جب بھی سوچا سر اٹھا کر اب جئیں گے کچھ دنوں
گھیر لیتی ہیں ہمیں انجام کی سرگوشیاں
پھر گلی کوچوں میں سناٹوں کا شاید رقص ہو
بانٹتے ہیں لوگ اک پیغام کی سرگوشیاں
کیوں قبیلے میں بہت سے لوگ بد ظن ہو گئے
چاند نے سن لی تھیں کل کیا بام کی سرگوشیاں
رات قطرہ قطرہ ٹپکیں آنکھ سے مجبوریاں
شام لمحہ لمحہ ابھریں جام کی سرگوشیاں
آنے والی رت میں بھی شاید نہ بننے دیں ہمیں
آج تک گزرے ہوئے ایام کی سرگوشیاں

غزل
دھندلے دھندلے پیڑ اگتی شام کی سرگوشیاں
مرغوب علی