دھندلا دیا زیست کا تصور
اپنی آنکھوں ہی کی نمی نے
حیوان صفت ہوا ہے آخر
دکھلایا کمال آدمی نے
کی دوستی بھی تو دشمنی سے
جانا نہ انہیں مگر ہمیں نے
گاڑھے کی تو کھال کھینچ ڈالی
رات ان کے جمال ریشمیں نے
شعلوں سے بجھائی پیاس جی کی
یاروں کے مزاج بلغمیں نے
یہ زہرہ یہ مشتری یہ مہتاب
کیا کیا نہ ملیں نئی زمینیں
مٹ کر بھی غبار کہکشاں ہیں
چمکا دیا کس کی ہمدمی نے
جو گل سر عرش بھی نہ کھلتے
وہ گل بھی کھلا دیے زمیں نے
شاید کہ طلب کیا نظرؔ کو
کعبے میں رسول ہاشمی نے

غزل
دھندلا دیا زیست کا تصور (ردیف .. ے)
قیوم نظر