دھند ہے یا دھواں سمجھتا ہوں
وسعت آسماں سمجھتا ہوں
عشق کی لذتوں سے ہوں واقف
درد و آہ و فغاں سمجھتا ہوں
غرق ہوتے جہاز دیکھے ہیں
سیل وقت رواں سمجھتا ہوں
گفتگو کرتا ہوں درختوں سے
پنچھیوں کی زباں سمجھتا ہوں
وہ کمال شعور پایہ ہے
ان کہی داستاں سمجھتا ہوں
غزل
دھند ہے یا دھواں سمجھتا ہوں
عین عرفان