دھوئیں میں ڈوبے ہیں پھول تارے چراغ جگنو چنار کیسے
نئی رتوں کے اڑن کھٹولوں پہ آ رہے ہیں سوار کیسے
میں اپنے آنگن کی زرد مٹی پہ بیٹھا پہروں یہ سوچتا ہوں
دبیز شیشے کی کھڑکیوں میں اگی تھی شاخ انار کیسے
چلو یہ مانا کہ میرے گھر کی گھٹی گھٹی سی فضا تھی لیکن
تری منڈیروں کی ڈالیوں پر بجھی دیوں کی قطار کیسے
لکھا ہے جغرافیوں میں سب کچھ مگر کسی نے نہ یہ بتایا
کھنچی فلک کی قنات کیوں کر بنا زمیں کا مزار کیسے
ادھورے خاکے میں رنگ بھر لوں گئے دنوں کا حساب کر لوں
مگر جو تیرے بغیر گزرے کروں وہ لمحے شمار کیسے
اجاڑ فصلیں حنوط سائے مکان ٹیلے سراب گلیاں
اتر کے پانی بنا گیا ہے زمیں پہ نقش و نگار کیسے
جنوں کی اندھی ہوا نے اطہرؔ خموش غرفوں کو لب دیے ہیں
صدا بنا ہے گلی گلی میں مرے لہو کا فشار کیسے
غزل
دھوئیں میں ڈوبے ہیں پھول تارے چراغ جگنو چنار کیسے
اطہر سلیمی