دھوکے نے مجھ کو عشق میں کیا کیا سکھا دیا
گرنا سکھا دیا ہے سنبھلنا سکھا دیا
روتی تھیں زار زار یہ وعدے نے آپ کے
آنکھوں کو انتظار بھی کرنا سکھا دیا
سورج کی تیز دھوپ بڑا کام کر گئی
خوابوں کے دائرے سے نکلنا سکھا دیا
اپنوں کی ٹھوکروں نے گرایا تھا بارہا
غیروں نے سیدھی راہ پہ چلنا سکھا دیا
سنتوشؔ کا کیا میں کروں شکر کس طرح
مجھ کو بھی دوستی کا سلیقہ سکھا دیا
غزل
دھوکے نے مجھ کو عشق میں کیا کیا سکھا دیا
سنتوش کھروڑکر