دھو گئی چہروں سے گرد یاس کا غازہ ہوا
کر گئی افسردہ روحوں کو تر و تازہ ہوا
لاکھ بیٹھوں چھپ کر اپنے بند کمروں میں مگر
توڑ کر آ جائے گی ایک ایک دروازہ ہوا
صبح آنچل کی ہوا دے کر کھلاتی ہے جسے
شب کو بکھراتی ہے خود اس گل کا شیرازہ ہوا
بھر چلے تھے زخم جو پھر سے لگے منہ کھولنے
کچھ پرانے درد لے کر آئی ہے تازہ ہوا
جی ترستا ہے پھر ان لمحوں کو جب یکجا تھے سب
رقص مے بوئے سمن رنگ شفق تازہ ہوا
ہم تو اپنی خانہ ویرانی کا ماتم کر چکے
دیکھ کر جا کر اب تو کوئی اور دروازہ ہوا
وہ لطافت وہ مہک کیوں چاندؔ یکسر کھو گئی
بھر رہی ہے کن خطاؤں کا یہ خمیازہ ہوا
غزل
دھو گئی چہروں سے گرد یاس کا غازہ ہوا
مہندر پرتاپ چاند