EN हिंदी
دھو گئی چہروں سے گرد یاس کا غازہ ہوا | شیح شیری
dho gai chehron se gard yas ka ghaza hawa

غزل

دھو گئی چہروں سے گرد یاس کا غازہ ہوا

مہندر پرتاپ چاند

;

دھو گئی چہروں سے گرد یاس کا غازہ ہوا
کر گئی افسردہ روحوں کو تر و تازہ ہوا

لاکھ بیٹھوں چھپ کر اپنے بند کمروں میں مگر
توڑ کر آ جائے گی ایک ایک دروازہ ہوا

صبح آنچل کی ہوا دے کر کھلاتی ہے جسے
شب کو بکھراتی ہے خود اس گل کا شیرازہ ہوا

بھر چلے تھے زخم جو پھر سے لگے منہ کھولنے
کچھ پرانے درد لے کر آئی ہے تازہ ہوا

جی ترستا ہے پھر ان لمحوں کو جب یکجا تھے سب
رقص مے بوئے سمن رنگ شفق تازہ ہوا

ہم تو اپنی خانہ ویرانی کا ماتم کر چکے
دیکھ کر جا کر اب تو کوئی اور دروازہ ہوا

وہ لطافت وہ مہک کیوں چاندؔ یکسر کھو گئی
بھر رہی ہے کن خطاؤں کا یہ خمیازہ ہوا