دھرتی میں بھی رینگ رہی ہے خون کی اک شریان
پتھر کی رگ رگ میں مچلا اشکوں کا طوفان
چیخ ہوا کی دینے لگی ہے ایک لغت ترتیب
پھولوں کا موضوع سخن ہے شعلوں کی پہچان
دریا دریا طوفانوں نے گیت کئے کمپوز
صحرا صحرا دھول کے بادل بانٹ گئے گلدان
شام کی اجرک ڈھونڈھ کے لائے دھوپ نہائے پیڑ
شام کی لالی اوڑھ کے آیا امبر سا مہمان
تیری خاطر ہی اے میرے بھوک کے مارے بھائی
پیٹ پہ پتھر باندھ کے رویا دو جگ کا سلطان
شاہ نصیرؔ کرے گا اپنی آنکھیں کل نیلام
بستی بستی نگری نگری کر دو یہ اعلان
غزل
دھرتی میں بھی رینگ رہی ہے خون کی اک شریان
سید نصیر شاہ