دھنک میں سر تھے تری شال کے چرائے ہوئے
میں سرمئی تھا سر شام گنگنائے ہوئے
سمے کی لہر ترے بازوؤں میں لے آئی
ہوا میں بحر تری سانس میں سمائے ہوئے
طمانیت سے اٹھانا محال تھا مشعل
میں دیکھنے لگا تھا اس کو سر جھکائے ہوئے
سحر کی گونج سے آوازۂ جمال ہوا
سو جاگتا رہا اطراف کو جگائے ہوئے
تھا باغ باغ شعاع سفید سے شب بھر
گلاب ابیض رخ تھا جھلک دکھائے ہوئے
خمار قرمزی سے آتشیں تھا ساغر خواب
بھرا تھا منہ ترے جامن سے بادہ لائے ہوئے
انار پھوٹتے تھے نیند کے سمندر میں
وہ دیکھتا تھا مجھے پھلجھڑی لگائے ہوئے
دکھا رہا تھا مرے پانیوں سے شہر وصال
کوئی چراغ سا اندر تھا جھلملائے ہوئے
ہوا کے جھونکوں میں جا کر اسے میں پی آیا
رہا وہ دیر تلک جام مے بنائے ہوئے
یہ تیری میری جدائی کا نقش ہے بادل
برس رہا ہے بیک وقت واں بھی چھائے ہوئے
مطابقت سے رہا طبع کے الاؤ کو
کہیں جلائے ہوئے اور کہیں بجھائے ہوئے
حنائی ہاتھ سے لگ کر سجی کچھ اور نویدؔ
مری انگوٹھی تھا عرصے سے وہ گمائے ہوئے
غزل
دھنک میں سر تھے تری شال کے چرائے ہوئے
افضال نوید