EN हिंदी
ڈھلک کے گرنے سے یہ دل مرا ڈرا ہوا ہے | شیح شیری
Dhalak ke girne se ye dil mera Dara hua hai

غزل

ڈھلک کے گرنے سے یہ دل مرا ڈرا ہوا ہے

سعید اقبال سعدی

;

ڈھلک کے گرنے سے یہ دل مرا ڈرا ہوا ہے
چھلکتے اشکوں میں اس نے مجھے رکھا ہوا ہے

غموں کے سارے پرندے ہی اس پہ آ بیٹھے
خوشی کی رت میں ذرا سا جو دل ہرا ہوا ہے

نہیں ہیں بولنے والے جو چار سو اپنے
ہمارے کانوں میں یہ شور کیوں بھرا ہوا ہے

مجھے ملے گا وہ تنکا ہی ناخدا بن کر
مرے لیے کسی طوفاں میں جو بہا ہوا ہے

بجھا سکے نہیں طوفان سیم و زر اس کو
ہوا کے رخ پہ چراغ انا جلا ہوا ہے

مری بھی پہلی محبت تھی صرف یک طرفہ
مرے بھی ساتھ ہوا سب سے جو سدا ہوا ہے

تمہارے پیار کا قرضہ ہے اس قدر دل پر
فقیر دل بھی تو قسطوں میں ہی گھرا ہوا ہے

ہے سانس سانس میں خوشبو اسی کی اب سعدیؔ
وفا کا پھول جو دل میں مرے کھلا ہوا ہے