ڈھلا نہ سنگ کے پیکر میں یار کس کا تھا
وہ ایک عکس چٹانوں کے پار کس کا تھا
زمیں پڑی رہی بے ساز و برگ کس کی تھی
کہیں برس گیا ابر بہار کس کا تھا
ہوائیں لے اڑیں نقش کمال کا نیرنگ
نہ جانے خاک پہ وہ شاہکار کس کا تھا
کہیں پتہ نہ لگا پھر وجود کا میرے
اٹھا کے لے گئی دنیا شکار کس کا تھا
نفس چراغ سیہ پانیوں میں تھا خاموش
خبر نہیں کہ اسے انتظار کس کا تھا
جو آرزو تھی بنی ایک بوجھ آخر زیبؔ
ہمیں اٹھائے پھرے دل پہ بار کس کا تھا
غزل
ڈھلا نہ سنگ کے پیکر میں یار کس کا تھا
زیب غوری