ڈھلا جو دن تو گیا نور آفتاب بھی ساتھ
شباب لے گیا رعنائی شباب بھی ساتھ
وہ ساتھ تھا تو شب زندگی چراغاں تھی
جلو میں رہتے تھے انجم بھی ماہتاب بھی ساتھ
حیات کیا ہے فقط مستعار لمحۂ شوق
یہ کہہ کے لے گئی موج ہوا حباب بھی ساتھ
اسی میں خیر ہے نظریں جھکی رہیں ورنہ
نظر اٹھے گی تو جل جائے گا نقاب بھی ساتھ
ہمیں سے رونق ہستی ہے اس خرابے میں
جو ہم مٹے تو مٹے گی یہ آب و تاب بھی ساتھ
حیات درد کی طغیانیوں میں ڈوبی ہے
غم حبیب بھی ہے زیست کے عذاب بھی ساتھ
خدائے عرش سخن سے ہوں فیضیاب کلیمؔ
کہ طور شعر سے لایا ہوں میں کتاب بھی ساتھ
غزل
ڈھلا جو دن تو گیا نور آفتاب بھی ساتھ
عطا حسین کلیم