دھڑکنیں بند تکلف سے ذرا آزاد کر
برملا ممکن نہیں دل میں کسی کو یاد کر
زندگی اک دوڑ ہے تو سانس پھولے گی ضرور
یا بدل مفہوم اس کا یا نہ پھر فریاد کر
ہر خزاں کی کوکھ سے ہوتی ہے پیدا نو بہار
دامن امید میلا اور نہ دل ناشاد کر
بستیاں تو نے خلاؤں میں بسائیں بھی تو کیا
دل کے ویرانوں کو دیکھ ان کو بھی کچھ آباد کر
غزل
دھڑکنیں بند تکلف سے ذرا آزاد کر
شریف کنجاہی