دھڑکنیں بن کے جو سینے میں رہا کرتا تھا
کیا عجب شخص تھا جو مجھ میں جیا کرتا تھا
ناخن وقت نے ہر نقش کھرچ ڈالا ہے
میرا چہرہ مری پہچان ہوا کرتا تھا
کائی ہونٹوں پہ ہمہ وقت جمی رہتی تھی
ایک دریا مری آنکھوں میں تھما کرتا تھا
اک تلاطم تھا تہہ آب سکوت دریا
دل خاموش میں اک شور رہا کرتا تھا
مرتعش ہوتا تھا جب خامہ انگشت کبھی
کیا کیا قرطاس خلا پر میں لکھا کرتا تھا
ذہن و دل اس لیے سرگرم عمل رہتے تھے
رہنمائی مری ہر وقت خدا کرتا تھا
آبلہ پائیاں کرتی تھیں اگر دل شکنی
حوصلہ پھر رہ امید کو وا کرتا تھا
ہو گیا نذر بالآخر مری حق گوئی کی
ایک سر جو کبھی شانوں پہ سجا کرتا تھا
کیا ہوا آج اے سالمؔ وہ شعور بالغ
جو قلم زد تری تحریر کیا کرتا تھا
غزل
دھڑکنیں بن کے جو سینے میں رہا کرتا تھا
سالم شجاع انصاری