دھار سی تازہ لہو کی شبنم افشانی میں ہے
صبح اک بھیگی ہوئی پلکوں کی تابانی میں ہے
آنکھ ہے لبریز شاید رو پڑے گا تو ابھی
جیسے ذلت کا مداوا آنکھ کے پانی میں ہے
میں نہیں ہارا تو میرے حوصلے کی داد دے
اک نیا عزم سفر اس خستہ سامانی میں ہے
بے ثمر بے رنگ موسم برف کی صورت سفید
اور دل امڈے ہوئے رنگوں کی طغیانی میں ہے
آگ ہے سینے میں تیرے موجزن تو یاد رکھ
شمع سی روشن اندھیرے گھر کی ویرانی میں ہے
ان گنت رنگوں کے پر بکھرے پڑے ہیں ہر طرف
وقت کا گھائل پرندہ پھر سے جولانی میں ہے
کس گھنے جنگل میں جا کر اب چھپیں بستی کے لوگ
آنکھ سی ابھری ہوئی سورج کی پیشانی میں ہے
غزل
دھار سی تازہ لہو کی شبنم افشانی میں ہے
وزیر آغا