دھانی سرمئی سبز گلابی جیسے ماں کا آنچل شام
کیسے کیسے رنگ دکھائے روز لبالب چھاگل شام
چرواہے کو گھر پہنچائے پہرے دار سے گھر چھڑوائے
آتے جاتے چھیڑتی جائے دروازے کی سانکل شام
سورج کے پاپوں کی گٹھری سر پر لادے تھکی تھکی سی
خاموشی سے منہ لٹکائے چل دیتی ہے پیدل شام
بے حس دنیا داروں کو ہو دنیا کی ہر چیز مبارک
غم زادوں کا سرمایا ہیں آنسو آہیں بوتل شام
سورج کے جاتے ہی اپنے رنگ پہ آ جاتی ہے دنیا
جانے بوجھے چپ رہتی ہے شب کے موڑ پہ کومل شام
سانسوں کی پر شور ڈگر پہ رقص کرے گا سناٹا
چپکے سے جس روز اچانک چھنکا دے گی پائل شام
بدرؔ تمہیں کیا حال سنائیں اتنا ہی بس کافی ہے
تنہائی میں کٹ جاتی ہے جیسے تیسے مخمل شام
غزل
دھانی سرمئی سبز گلابی جیسے ماں کا آنچل شام
بدر واسطی