EN हिंदी
ڈھالتا ہوں شعر میں تنہائیوں کو | شیح شیری
Dhaalta hun sher mein tanhaiyon ko

غزل

ڈھالتا ہوں شعر میں تنہائیوں کو

خلیل مامون

;

ڈھالتا ہوں شعر میں تنہائیوں کو
ڈھونڈھتا ہوں اس میں پھر پرچھائیوں کو

کھوکھلی آنکھوں سے مجھ کو گھورتی ہیں
دیکھ کر ڈرتا ہوں میں پہنائیوں کو

وہ برائی سب سے میری کر رہے ہیں
کیوں نہیں کرتے بیاں اچھائیوں کو

شہر میں تو قتل سب کا ہو چکا ہے
بھیج دو اب دشت میں بلوائیوں کو

دل کی بھٹی یہ نہ ہوں تو جل ہی جائے
روکو مت تم اشک کی پروائیوں کو

دے رہی ہیں اک سے اک نظارہ مامونؔ
کوستے ہو کیوں تم ان تنہائیوں کو