دیو قامت بنا ہوا گھوموں
اپنے قد کو مگر چھپا نہ سکوں
وہ بھی پہچانتا نہیں ہے مجھے
میں بھی اپنی نظر کو جھٹلا دوں
ہٹ گیا ہوں مدار سے اپنے
اب میں یوں ہی خلا میں پھرتا ہوں
ٹیلی ویژن پہ ایک چہرہ ہے
کم سے کم اس کو دیکھ سکتا ہوں
کب سے سوکھی پڑی ہے یہ دھرتی
میں کسی کے لہو کا پیاسا ہوں
اڑتے پھرتے ہیں ہر جگہ ہٹیل
کوئی فرہاد ہے نہ اب مجنوں
پوچھتی ہیں بھری پری سڑکیں
کون ہے جس کے ساتھ میں گھوموں
غزل
دیو قامت بنا ہوا گھوموں
مدحت الاختر