دیتی ہیں تھپکیاں تری پرچھائیاں مجھے
رشک بہشت ہیں مری تنہائیاں مجھے
میرے نصیب میں سہی آہ و فغاں مگر
اب تو سنائی دیتی ہیں شہنائیاں مجھے
کتنے عروج پر ہے مرے عشق کا وقار
حاصل ہیں کوئے یار کی رسوائیاں مجھے
مائل ہے چشم مست ادھر لگ رہا ہے اب
آواز دیں گی جھیل کی گہرائیاں مجھے
قائم ہے میرے درد کا اب تک وہی بھرم
اب بھی سلام کرتی ہیں پروائیاں مجھے
اس دور سرکشی کی کشاکش کے درمیاں
لگتی ہے پر سکون جبیں سائیاں مجھے
جو تھے خراب وہ تو بلندی پہ ہیں علیمؔ
پستی میں لے گئیں مری اچھائیاں مجھے
غزل
دیتی ہیں تھپکیاں تری پرچھائیاں مجھے
علیم عثمانی