دیر تک کوئی کسی سے بدگماں رہتا نہیں
وہ وہاں آتا تو ہوگا میں جہاں رہتا نہیں
ایک میں ہوں دھوپ میں کتنا سفر طے کر لیا
ایک تو ہے جو کبھی بے سائباں رہتا نہیں
تم کو کیوں پیڑوں پہ لکھے نام مٹنے کا ہے دکھ
اس بدلتی رت میں پتھر پر نشاں رہتا نہیں
وہ بنا لیتا ہے اپنا گھونسلہ دیوار میں
جس پرندے کا شجر میں آشیاں رہتا نہیں
تو پرندوں کی طرح اڑنے کی خواہش چھوڑ دے
بے زمیں لوگوں کے سر پر آسماں رہتا نہیں
غزل
دیر تک کوئی کسی سے بدگماں رہتا نہیں
افضل گوہر راؤ