دیر تک اک سایۂ ابر گماں دیکھا ہوا
آگ بنتا جا رہا ہے سائباں دیکھا ہوا
پھر اسی شدت کی ٹیسیں ہیں دل کج فہم میں
پھر وہی ہے مجمع چارہ گراں دیکھا ہوا
دیکھتا رہتا ہوں شکلیں سوچتا رہتا ہوں نام
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں عکس ناگہاں دیکھا ہوا
راز ہے کوئی جو مجھ پر منکشف ہونے کو ہے
کس لئے لگتا ہے ان دیکھا جہاں دیکھا ہوا
کیا کہوں کس کیف میں گم ہے مری چشم خیال
ہر کوئی محسوس ہوتا ہے یہاں دیکھا ہوا
جھوٹ ٹھہرا ہے منورؔ ان رتوں کے درمیاں
خواب امکان نمو پیوند جاں دیکھا ہوا
غزل
دیر تک اک سایۂ ابر گماں دیکھا ہوا
منور عزیز