دیر سے سو کر اٹھنے والو تڑپو لیکن شور نہ ہو
تم کو حق ہے آئینوں کو توڑو لیکن شور نہ ہو
ہم سایے کا سکھ تو اس کے خواب کا پورا ہونا ہے
تم پر رقت طاری ہو تو رو لو لیکن شور نہ ہو
شام ڈھلے پرواز سمٹ کر شاخوں پر آ جاتی ہے
اپنی آنکھیں راہ گزر میں رکھو لیکن شور نہ ہو
دیوانے بھی اہل سماعت کی خدمت کر سکتے ہیں
دل ہونٹوں پر آ جائے تو بولو لیکن شور نہ ہو
محسنؔ کس کو فرصت ہے جو تیشہ لے کر آئے یہاں
اپنے بت کو اپنے ہاتھ سے توڑو لیکن شور نہ ہو
غزل
دیر سے سو کر اٹھنے والو تڑپو لیکن شور نہ ہو
محسن اسرار