دینا ہے تو نگاہ کو ایسی رسائی دے
میں دیکھتا ہوں آئنہ تو مجھے تو دکھائی دے
کاش ایسا تال میل سکوت و صدا میں ہو
اس کو پکاروں میں تو اسی کو سنائی دے
اے کاش اس مقام پہ پہنچا دے اس کا پیار
وہ کامیاب ہونے پہ مجھ کو بدھائی دے
مجرم ہے سوچ سوچ گنہ گار سانس سانس
کوئی صفائی دے تو کہاں تک صفائی دے
ہر آنے جانے والے سے باتیں تری سنوں
یہ بھیک ہے بہت مجھے در کی گدائی دے
یا یہ بتا کہ کیا ہے مرا مقصد حیات
یا زندگی کی قید سے مجھ کو رہائی دے
کچھ احترام اپنی انا کا بھی نورؔ کر
یوں بات بات پر نہ کسی کی دہائی دے
غزل
دینا ہے تو نگاہ کو ایسی رسائی دے
کرشن بہاری نور