دیں دیدۂ خوش خواب کو تعبیر کہاں تک
اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک
کب تک کہ کہو جذبۂ تعمیر کو تخریب
اے اہل صفا جھوٹ کی تشہیر کہاں تک
اب دوست بنانے کا ہنر بھی ذرا سیکھیں
کی جائے مہ و نجم کی تسخیر کہاں تک
اے شہر انا تیرے فریبوں کے بھرم میں
آئینہ مثالوں کی ہو تحقیر کہاں تک
ہر آن کوئی مجھ میں نیا ٹوٹ رہا ہے
آخر کوئی خود کو کرے تعمیر کہاں تک
غزل
دیں دیدۂ خوش خواب کو تعبیر کہاں تک
عرفان وحید