دیکھوں تو مرے دل میں اترتا ہے زیادہ
شعلہ کہ تہہ آب نکھرتا ہے زیادہ
کیا جانیے کیا بات ہے اب دشت کی نسبت
دل خامشیٔ شہر سے ڈرتا ہے زیادہ
اندر کا وہی روگ اسے بھی ہے مجھے بھی
بنتا ہے زیادہ وہ سنورتا ہے زیادہ
جو آنکھ کے جلتے ہوئے صحرا سے پرے ہے
بادل اسی رستے سے گزرتا ہے زیادہ
رخ شہر کی جانب ہوا جنگل کی ہوا کا
اور شور مرے دل میں ابھرتا ہے زیادہ
جعفرؔ یہ لگا زخم محبت بھی عجب ہے
بڑھتا ہے زیادہ جو نہ بھرتا ہے زیادہ

غزل
دیکھوں تو مرے دل میں اترتا ہے زیادہ
جعفر شیرازی